
چوٹی کی صورت بندھے ہوئے چاندی سے سفید بالوں میں کہیں کہیں سیاہ بال بھی موجود تھے، جو اُس کی ڈھلتی عمر کا پتا دیتے تھے لیکن اُس کے عزائم جوانوں کے سے تھے ، اُس کی شخصیت اور باتوں میں جادوئی اثرات تھے یہی وجہ تھی کہ اُس کی کہانی سننے والے اُس کی باتوں میں محو تھے ، اُس پر تن تنہا دنیا کو بدلنے کا جنون سوار تھا۔ توفیق پاشا موراج اپنی بپتا سنا رہا تھا اُس نے اپنی زندگی کے پینتالیس حسین سال یہاں گزار دیے ہیں اور اپنے فارم کی بچوں کی طرح دیکھ بھال میں مصروف ہے۔ ”دریائے ملیر کے کنارے درختوں میں گھری آبادی جسے آج ملیر کا نام دیا جاتا ہے وہاں اب دریا ہے نہ جنگلات اور نہ ہی جنگلی حیات۔۔۔ پہلی بار ملیر آیا تو یہاں دریا کے کچھ کچھ آثار موجود تھے ، درختوں کے جھنڈ نے اس علاقے کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا اور یہ دیکھنے والوں کے لیے کسی جنگل سے کم نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اسے ملیر یعنی جنگل یا باغ کہا جاتا تھا، یہاں پھل دار درخت بھی تھےاور خوبصورت اور سریلی آواز میں گانے والے پرندے بھی جو صبح سویرے کانوں میں میٹھے رس گھولتے تھے، رات کو جنگلی حیات کی خوفناک آوازیں سراسیمگی پیدا کردیتی ھیں“۔ توفیق پاشا ضلع ملیر کی کہانی سنا رہے تھے۔

جو کراچی کے 6اضلاع میں سے ایک ہے۔ ملیر بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جنگل یا باغ کے ہیں ۔ ملیر دیہی و شہری زندگی کا امتزاج رکھتا ہے اس کے مشرقی علاقوں میں باغات واقع ہیں جہاں سبزیوں ترکاریوں کے علاوہ پھل بھی اگائے جاتے ہیں اور کھیتی باڑی یہاں کی بیشتر آبادی کا ذریعہ معاش رہا ہے۔
آج تیزی سے ترقی کرتی دنیا نے ضلع ملیر کو جنگل سے سیمنٹ کے شہر میں بدل دیا ہے بلند و بالا عمارتوں اور پختہ سڑکوں نے اس ضلع کی منفرد شناخت مٹا دی ہے۔ اب یہاں درختوں کی جگہ کنکریٹ کی عمارتوں نے لے لی ہے ،جو دن میں درجہ حرارت جذب کرتی ہیں اور رات کو خارج کرتی ہیں۔ موراج نے بتایا کہ جب وہ ملیر آئے تو یہاں گیڈر بھی تھے اور مختلف انواع اقسام کے پرندے اور جنگلی حیات بھی ، لیکن اب یہاں صرف چھپکلیاں اور سانپ رہ گئے ہیں۔ ملیر ندی بہتی ہوئی ندی تھی اور بہت زیادہ بارشوں کے دوران یہاں میٹھا پانی بھی بہتا تھا لیکن اب سمندری پانی نے زیر زمین میٹھے پانی کو بھی کھارا کر دیا ہے۔ کراچی ایک صحرا تھا اور یہ کبھی سرسبز و شاداب علاقہ نہیں رہا موسمیاتی تبدیلیوں نے انسانوں کے رہن سہن کو بدل دیا جو نہ صرف اس شہر بلکہ ضلع ملیر کی شادابی بھی نگل گیا ، کراچی اب کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے یہاں ہر طرف عمارتوں کا جال اور لوگوں کا ہجوم ہے جو ایک طرف ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہا ہے تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی آبادی وسائل کی کمی کا شکار ہے،شہرمیں لگائے گئے انتہائی قیمتی اور پرانے درخت محض اس لیے ا کھاڑ دیے گئے کہ شاپنگ پلازہ اور رہائشی عمارتیں تعمیر کی جاسکیں اور یوں ضلع ملیر سے ہریالی چھین کر اسے بانجھ بنا دیا گیا موسمیاتی تبدیلیوں نے اس شہر سے بارشیں چھین لی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملیر جیسا ضلع جہاں سبزیاں اور پھل کاشت کیے جاتے تھے لیکن اب یہاں سبزیاں ہیں اور نہ ہی پھل۔ اگر کچھ ہے تو بس دھواں عمارتوں ، پلوں اور سڑکوں کی تعمیر۔ ،
موراج کے بقول کراچی صحرا تھا اور یہ کبھی بھی سر سبز و شاداب نہیں رہا ، تو پھر اس صحرا کونخلستان میں بدلنے کے لیے اتنے جتن کیوں کیے جائیں ، جس شہر میں 15فیصد پانی گاڑیوں کی دھلائی پر ضائع کر دیا جاتا ہو اُسے درخت اُگانے کے لیے پانی کی شدید کمیابی جیسے مسائل کا سامنا ہے ،کراچی میں جون کے مہینے میں آنے والی گرمی کی لہر نے 1200لوگوں کی جان لے لی تھی ، عالمی ادارہ موسمیات اور ایشیائی ترقیاتی بینک میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مشیرِ خصوصی برائے ایشیا اور موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے ماہر قمر الزمان چوہدری کے مطابق کراچی صحرا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحرا میں درخت نہیں ہوتے ، کراچی میں درخت تھے اور صحرا میں بھی درخت لگائے جاتے ہیں ، لیکن بدقسمتی سے کراچی سے درختوں کا خاتمہ ہو گیا اور نئے درخت اتنی بڑی تعداد میں نہیں لگائے گئے جس کی وجہ سے کنکریٹ کا شہر کراچی اب ایک بھٹی بن چکا ہے اور شہر میں داخل ہونے والی گرم ہوائیں کنکریٹ اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں ، جس طرح تندوراپنے اندر گرمی کو روک لیتا ہے اور اسے باہر نہیں نکلنے دیتا اور دہکتا رہتا ہے۔یہ شدید گرمی urban heat island effect کی وجہ سے تھی، جس میں درجہ حرارت ہوتا تو 45 ڈگری ہے، لیکن محسوس 50 ڈگری ہوتا ہے، کیونکہ شہر میں موجود گرم ہوا باہر نہیں نکل پاتی۔ قمرالزمان کے مطابق یہی درجہ حرارت، بلکہ اس سے بھی زیادہ سندھ کے دوسرے شہروں سے بھی رپورٹ ہوا ہے، لیکن اس نے لوگوں کی جانیں اس طرح نہیں لیں جس طرح کراچی میں، کیونکہ وہاں پر گرم ہوا کے پھیلنے اور باہر نکلنے کے لیے جگہ موجود ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میںبھی نشاندہی کی تھی کہ کراچی کے سرسبز علاقوں کو دوبارہ سرسبز و شاداب بنایا جائے ۔ جامعہ این ای ڈی میں شعبہ آرکیٹیکچرکے سربراہ نعمان احمد نے بتایا کہ کراچی جب صحرا تھا تب بھی کراچی کے بعض علاقے سرسبز و شاداب تھے ، کراچی کی پرانی تصاویر میں یہ مناظر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ غلط تاثر ہے کہ کراچی میں پانی کی کمی ہے ، کراچی میں پانی کی منصفانہ تقسیم اصل مسئلہ ہے اور40فیصد پانی چوری کر لیا جاتا ہے ، شہر کو یومیہ ایک ہزار گیلن پانی کی ضرورت ہے ، ہم ساڑھے 4سو ملین گیلن استعمال شدہ پانی میں سے 50فیصد پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنا سکتے ہیں اور یہ پانی درختوں کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے کافی ہے ، اس کے نتیجے میں سمندری آلودگی بھی کم ہوگی اور سمندری ماحولیات بھی محفوظ رہیں گی۔ نعمان کہتے ہیں کہتے ہیں شہر میں 40اور 50سال پرانی پائن لائینیں موجود ہیں جو جگہ جگہ سے ناکارہ ہو چکی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں 15فیصد پانی گاڑیوں کی دھلائی پر استعمال کیا جاتا ہے ، لاس اینجلس میں اس وقت پانی کاشدید بحران ہے اور انہوں نے پودوں کو تازہ پانی دینے پر پانی عائد کر دی ہے لیکن ہم اپنی گاڑیاں بھی صاف پانی سے دھوتے ہیں۔نعمان نے بتایا کہ اورنگی میںتجرباتی بنیادوں پر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا گیا ہےجس کا تجربہ کامیاب ہوا ہے ، اس سے نا صرف پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنایا گیا ہے بلکہ اس پانی کے ویسٹیج کو مصوعی کھاد بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، ہمیں کراچی میں درخت اُگانے کے لیے بھی متبادل ذرائع استعمال کرنے ہوں گے۔ توفیق پاشا موراج خود کو مالی کہتے ہیں اور لوگ انہیں ماہر ذراعت و ماحولیات کی حیثیت سے جانتے ہیں ، انہوں نے انسانوں کے اس جنگل میں ساڑھے چھے ایکڑ اراضی کو حقیقی جنگل میں بدل دیا ہے۔ دو برس پرانے اس فارم کو املی، نیم ، پیپل ، برگد ، چیکو، جنگل جلیبی، آم سمیت انواع و اقسام کے دختوں نے گھیر رکھا ہے جو فارم میں آنے والوں کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ فارم میں سالہا سال پرانے درخت اور ٹیوب ویل موجود ہے جو دیکھنے میں کسی عجوبے کی
اگر کراچی سے یونہی درختوں کا خاتمہ کیا جاتا رہا اور موسمی تغیر کے لیے کوئی جامع پالیسی تشکیل نہ دی گئی تو ایک دن یہ شہر بنجر بن جائے گا اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شہر کو رہنے کے قابل بنانے کے لیے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں درخت لگانئے جائیں۔ یہ عمل دس سے پندرہ سالوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ توفیق پاشا ہم سب کے لیے ایک مثال ہیں وہ اس عمر میں بھی انتہائی پرعزم اور جواں جذبوں کے حامل ہیں وہ اپنے اندر ایک دنیائے بسائے ہوئے ہیں، ہم میں سے ہر فرد کو توفیق پاشا بننے کی ضرورت ہے اگر معاشرے کا ہر فرد توفیق پاشا بن جائے تو یقینا ہم نا صرف ملیر بلکہ پورے کراچی کو ہرا بھرا اور سر سبز و شاداب کراچی بنا سکتے ہیں۔۔
Leave a Comment